Menu 

سکول اور معیارِ تعلیم

by: admin

January 25, 2017

سکول اور معیارِ تعلیم

صوبائی حکومتیں کوشش کر رہی ہیں کہ تمام بچوں کو سکولوں میں داخل کرایا جائے پچھلی 2دہائیوں سے تمام صوبے سرکاری نظام تعلیم میں ریفارمز لا رہے ہیں ۔
داخلے کی شرح کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لئے اساتذہ کی تنخواہیں بڑھا دی ہیں ۔ سہولیات میں اضافہ کر دیا گیاہے۔ اساتذہ کی مانیٹرنگ ہو رہی ہے۔ اساتذہ کی تقرریوں کو زیادہ شفاف بنا دیا گیا ہے۔ اور بہت سارہ پیسہ اساتذہ کی ٹریننگ پر لگایا جا رہا ہے۔ تقریباََ ہر سال داخلے کی مہم چلائی جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہم یونیورسل انرولمنٹ کے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ حکومتوں کے لئے یہ ایک معمہ بن گیا ہے۔ کہ 15سے 10فی صد سکول سے باہر بچوں کو تعلیمی دھارے میں کیوں نہیں لا سکے۔

اس کی بہت سار ی وجوہات ہیں
* سکولوں کی تعداد کافی نہیں ہے خصوصاََ لڑکیوں کے لئے
* کچھ سکول پہنچ سے دور ہوتے ہیں اور جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کا خرچہ زیا دہ ہوتا ہے۔
* بہت سارے گھروں کا ذریعہ معاش صرف بچوں کی محنت مزدوری کرنا وغیرہ ہے۔
* اس کے علاوہ ہم لوگ آئے دن ٹیلی ویژن یا اخباروں اور سوشل میڈیا پر دیکھتے رہتے ہیں کہ بہت سارے والدین تعلیم کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ اور کہیں پر مذہبی اور ثقافتی رکاوٹیں بھی ہیں جو انرولمنٹ کو بڑھنے نہیں دے پا رہے۔

اس مسئلے کو ایک دوسرے انداز میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ پوچھنا چاہیے۔پاکستان میں بچوں کی بہت بڑی شرح سکولوں میں کیوں جاتی ہے ؟
اگر اس سوال کواس انداز سے پوچھیں تو بچوں کے سکول چھوڑ جانے کے عمل کو صحیح سمجھا جا سکتاہے ۔ہم جانتے ہیں کہ مہنگے پرائیویٹ سکولوں میں جانے والے بچوں کے علاوہ جن کی بہت تھوڑی سی شرح ہے سکولوں میں جانے والی بچوں کی بہت بڑی تعداد کو کس کوالٹی کی تعلیم دے رہے ہیں ۔

پنجاب ایگزامینشن کمیشن (PEC)کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ پنجم سے ہشتم جماعت کے زیادہ تر بچوں کی کاردگردگی بہت خراب ہے۔ ASERکا سروے بتاتا ہے کہ تقریباََ 50فیصد پانچویں جماعت کے بچے دوسری جماعت کی سطح کے سوال حل نہیں کر سکتے ۔ ۔

تو پھر بچے سکولوں میں کیوں آئیں ؟ جلد سکول چھوڑ کر کوئی اپنا روزگار شروع وقت پر کیوں نہ کریں ؟
ہم جانتے ہیں تقریبا 50-60فی صد بچے میڑک امتحان پاس نہیں کر پا تے ۔ پہلی جماعت میں داخل ہونے والی بہت بڑی تعداد دسویں جماعت تک نہیں پہنچ پاتی ۔
اگر ساری مشکلات کو عبور کر کے والدین اپنے بچے کو سکول داخل کروائیں ۔ اور دس سال تک یہ دیکھیں کہ وہ کم از کم میٹرک کر لے۔ جس کا بہت زیادہ امکان ہے کہ بچہ دس سال میں بھی میٹرک نہیں کر سکے گا۔یہ بات بھی اعداد و شمار سے بالکل واضح ہے۔ تو پھر والدین اپنے اور اپنے بچے کے دس سال کیوں ضائع کریں ۔

ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ میٹرک کرنے کے بعد بھی کوئی نوکری تلاش کرنے میں کتنی دشواری ہوتی ہے۔ میٹرک پاس کون سی نوکری کر سکتا ہے۔ پاکستان میں گریجوایٹس لوگوں کی بہت بڑی شرح بے روزگار ہے۔
ہماری ملک کی معیشت تنزلی کا شکار ہے ۔ نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد کام کرنے کی عمر میں داخل ہو رہے ہیں ۔ نتیجتاََ کمزور معشیت والے ملکوں میں بے روزگاری بڑھ جاتی ہے۔ اور نئے آنے والے نوجوانوں کے لئے مواقع کم ہو جاتے ہیں ۔

ایسی صورت حال میں لڑکیوں کے لئے اور زیادہ مسائل ہوتے ہیں ۔خواتین کی مجموعی آبادی کا صرف 20فی صد ہی نوکریاں وغیرہ کرتی ہیں ۔ان میں سے زیادہ تر شعبہ تدریس سے منسلک ہیں ان کے لئے مردوں کے مقابلے میں کام کرنے کے موقع بھی کم ہوتے ہیں ۔
اگر کسی معاشرے میں تعلیم کے بدلے معاشی فائدہ مثلاََ نوکری وغیرہ ایک اہم محرک سمجھا جائے تو اور اس معاشرے کی معشیت تنزلی کا شکار ہو تو وہاں تعلیم کی طلب کم ہوگی ۔
تعلیم کی طلب صرف نوکری کے لئے نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ تعلیم کو بنیادی حق سمجھتے ہیں ۔اور بہت سارے لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ تمام معاملات کو بہتر کرنے کیلئے شہریوں کا تعلیم یافتہ ہونا بنیادی شرط ہے اور عمومی طور پر معاشرے اور جمہوریت کو تعلیم ہی زیادہ موثر بنا سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا ہو ! لیکن ہمارے ملک میں تعلیم کی بہتری کے لئے موثر اقدامات نہیں اُٹھائے جاتے ۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے بہتر مستقبل کے لئے ہر بچے کو پڑھانا انہتائی اہم ہے تو کیا ریاست اور سوسائٹی نے کوئی ایسی حکمت عملی بنائی ہے۔

لوگوں کے واویلا کے باوجود شعبہ تعلیم ہمیشہ نظر انداز ہوا ہے۔ صرف بچوں کو سکولوں میں داخل کرنے سے وہ تعلیم یافتہ نہیں ہونگے۔ بنیادی مسئلہ سکولوں میں آنے والے بچوں کو معیاری تعلیم دینا ہے جو معاشرے میں بہتری لانے کے لئے موثر ثابت ہو گی اور ہم اس میں مجموعی طور پر ناکام ٹھہرے ہیں ۔ درحقیقت اس سکولنگ سے جو تعلیم دی جا رہی ہے اس سے والدین اتنے پُر امید نہیں ہیں کہ ان کے بچوں کی تربیت بہتر ہوگی اور مستقبل روشن ہو گا۔

تحریر :محمد فیاض ورک
شعبہ شماریات ادارہ تعلیم وآگاہی