خصو صی بچے ۔۔۔۔۔ بوجھ نہیں!!!
by: Qamar Abbas
December 16, 2016
Author: Ms. Saba Tehseen (EYA Faisalabad)
نعمت ہر حال میں نعمت ہوتی ہےچاہے انسان اس کو لاکھ ٹھکرائے اور اس سےانکار کرےاللہ نے واضع طور پر قرآن حکیم میں ارشاد فرمادیا ہےکہ اور تم میری کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔یہ تو اللہ کا وعدہ ہے کہ اس نے جس جس روح کو زندگی بخشی اس کیلئے اپنی نعمتوں کے دروازے کھول ڈالےلیکن انسان نادان ہے وہ اس حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔اللہ نے انسان کو زندگی کا لطف اٹھانے کے واسطے جہاں دیگر نعمتیں عطاء کیں وہیں اس کو صحت و تندرستی دے کر ایک اور احسان عظیم کر دیااس لیئے کہا جاتا ہے تندرستی ہزار نعمت ہے۔ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ انسان کو اپنی اس تندرستی پر خدا کا ممنون ہونا چاہیے کہ اس نے ہمیں اس قابل بنایا کہ وہ ہر کام با آسانی کر سکتا ہے۔یہ بھی اللہ کا امتحان ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو دے کر آزماتا ہےتو کچھ لوگوں کو نادے کر اور چند لوگ ایسے ہیں جن کو دے کر اور پھر واپس لے کر آزماتا ہے۔بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کسی جسمانی معذوری کا شکار ہوتے ہیں لیکن یہ معذوری خدا کی طرف سے ہوتی ہے اور اس میں ان کا کوئی عمل دخل نہیںب ہوتا۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ محض ان کی معذوری کے باعث ان کو غیر ضروری تصور کرنے لگتے ہیںان کی نظر معذور افراد وہ کام نہیں کر سکتے جو دوسرے نارمل افراد کر سکتے ہیں۔لیکن تاریخ شاہد ہے کہ بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو معذور ہونے کے باوجود ایسے ایسے کارنامے سر انجام دے گئے جو کہ رہتی دنیا کیلئے مشعل راہ رہیں گےاور دنیا آج تک ان کے ان کارناموں سے آج بھی مستفید ہو رہی ہے۔
سٹیفن ولیم ہاکنگ ایک برطانوی ماہر طبیعات جو کہ معذور اور اعصابی بیماری کا شکار تھالیکن اپنی ذہانت کے با عث برطانوی شاہی ادبی سوسائٹی کا تا حیات اعزازی ممبر تھے۔اس کے بعد ڈومینکو باب ہیں جو کہ ایک فرانسیسی صحافی فرانس کے مشہور زمانہ فیشن میگزین ایلی کےلکھاری اور ایڈیٹر تھےباوجود اپنی معذوری کے انہوں نے اپنی تصانیف جاری رکھیں۔ آج جس بجلی کے بلب کی روشنی میں ہم اپنے روز مرہ کے افعال سر انجام دیتے ہیں اس کے مؤجد تھامس ایڈیسن اور ایک اور مشہور ماہر طبیعات البرٹ آئنسٹائن یہ دنیا کے وہ چند عظیم لوگ ہیں جن کی دنیا معترف ہے اپنی اختراع و ایجادات کی بدولت ا نہوں نے دنیا کو ایک نئی جہت دی۔اور حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اتفاق ہے کہ یہ سب شخصیات کسی نہ کسی جسمانی معذوری کاشکار تھیںلیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی معذوری کو اپنی زندگیوں میں داخل ہونے کی قطعی اجازت نہ دی۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تو معذوروں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ان ہو ممکن سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔لیکن ہمارے ملک میں صورتحال اس کے بہت بر عکس ہے،یہاں معذور افراد کیلئے بنیادی سہولیات بہت کم ہیںجو معذور افراد کو فراہم کی جاتی ہیں۔درحقیقت ہمارے ہاں معذور افراد کو ایک بوجھ کے طور پر لیا جاتا ہے۔چند ایک جگہوں پر ایسے مراکز ضرور قائم ہیں جہاں معذور افراد کی دیکھ بھال کی جاتی ہےوہاں بھی سہولیات کافی نہیںہیں لیکن پھر بھی حکومت کا احسان ہے کہ یہی کر دیا کافی سمجھ کر لیکن حقائق تو یہ ہیں کہ صرف اتنا کر دینا کافی نہیں۔معذور افراد عام آدمیوں کی نسبت زیادہ قوت برداشت اور ذہنی طور پر مضبوط ہوتے یہاں ان کی سوچنے کی صلاحیت دیگر نارمل افراد سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔اگر ایسے افراد کہ بہتر انداز میں سنبھالا جائے تو یہ بہت کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔اگرچہ معذور افراد کی بہبود کیلئے حلومت تھوڑی بہت کوششیں کرتی بھی نظر آتی ہےاس سلسلے میں ڈسٹرکٹ ایجو کیشن آفیسر فار سپیشل پرسنزکےمطابق ڈی ۔سی ۔او فیصل آباد نورالامین مینگل نے فوارہ چوک کے قریب واقع کشمیر پارک جو کہ 02 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے۔اس پارک کا چوتھائی حصہ معذور افراد کیلئے مختص کر دیا ہے۔اس کے علاوہ جناح پارک فیصل آباد میں بھی اس طرح کے اقدامات کئے جائیں گےوہاں بھی ایسے معذور افراد کیلئے ریمپ بنائیں جائیں گےجہاں معذور افراد بنا کسی مدد کے خود آجا سکیں گے اور ان کیلئے مخصوص جھولے لگائیں جائیں گے۔
P-H-Aنے اس پراجیکٹ پر آنے والے اخراجات کا تخمینہ لگایا ہے جو کہ لگ بھگ 350000پینتیس لاکھ روپے کے قریب ہےلیکن فی الحال یہ ابتدائی طور پر لگایاگیا تخمینہ ہے اخراجات اس سے زیادہ بھی آسکتے ہیں۔لاہور میںریس کورس اور باغ جناح میں معذورافراد کیلئے ایسے اقدامات کیئے جا چکے ہیں۔اب حکومت پنجاب فیصل آباد میں بھی ایسا ہی سیٹ اپ لگا رہی ہےجس کا مقصد معذور افراد کو ایسا ماحول فراہم کرنا ہے جس سے ان کو کوئی پریشانی نہ ہو مزید یہ کہ حکومت پنجاب کی مدد کیلئے پرائیویٹ سیکٹر بھی آمادہ نظر آتاہے۔مگر تا حال یہ بات صرف زبانی کلامی ہی ہے D-E-Oفیصل آباد کے مطابق جیسے ہی ٖفنڈز جاری ہوتے ہیں تو کام شروع ہوجائے گا اور پارک کے اس حصے کی تکمیل اندازاً ایک سال کے عرصے میں مکمل ہوجائے گی۔غور طلب امر یہ ہے کہ محض ایک چوتھائی حصے کا ایک سال کی مدت میں مکمل ہونا حیرت کی بات ہے اسی رفتار سے دوسرے پراجیکٹ مکمل ہونے میں تو پھر سالوں لگ جائیں گے، حالانکہ ایسے کام تو ہنگامی اور ترجیحی بنیادوں پر ہونے چاہیں۔
اس وقت ضلع فیصل آباد معذور بچے جو کہ گورنمنٹ سکولوں میں جو بچے آرہے ہیں ان سے کئی گنا تعداد ایسی ہے جو کہ گھروں میں ہےاس وقت کل 3500 کے قریب معذور بچے ہیں جو سکولوں میں آرہے ہیں جن میں سے 2200 سے 2400 ایسے ہیں جو گورنمنٹ سکولوں میں رجسٹرڈ ہیںاور تقریباً 1500 ایسے ہیں جومختلف NGO`s کی طرف سے رجسٹرڈ کرائے گئے ہیں۔ E-D-O فیصل آباد کے مطابق ایک محتاط اندازہ ہے کہ اس وقت پورے فیصل آباد میں معذور افراد کی کل تعداد تقریباً 05 سے 08لاکھ کے قریب ہے یہ وہ تعداد ہے جو کہ کسی نا کسی طرح رجسٹرڈ ہو گئی ہےورنہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ایک سماجی تنظیم P-W-D نے تحقیق کی ہے جس میں صوبوں اور ضلعوں کے آپسی موازنے شامل ہیں جس کے مطابق سال 2012 میں ضلع فیصل آباد میں تمام علاقوں میں
تعدادمعذوراں بشمول مر دعورت 253516
دیہاتی علاقوں میں کل تعداد 148796
شہری علاقوں میں کل تعداد 60709
P-W-D کے مطابق تقریباً 08 لاکھ بچے ایسے ہیں جو گھروں میں ہیں جن کو سکولوں تک لانا ہے۔
معذور افراد کی تربیت اور تعلیم کے حوالے سے فیصل آباد میں ملت روڈ پر واقع ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں ایسے تمام معذور افراد اور طلباء کو ہنر سکھائے جاتے ہیں لیکن یہ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تمام معذور افراد کیلئے نا کافی ہے۔مزید یہ کہ اس ٹریننگ سینٹرکی اپنی کوئی عمارت نہیں ہےٹریننگ سینٹرکے اندر تھوڑی سی جگہ دے دی گئی۔ادارہ بحالی معذوراں کے آفیسر کے مطابق اس وقت 50 کے قریب تعداد میں ایسے افراد زیر تعلیم ہیں ان کا کہنا تھا کہ بھلے ادارہ ایک ہی ہو مگر اس میںپورشن الگ ہونے چاہیے تاکہ یہاں پرمعذور افراد ہنر سیکھ کر مفید شہری بن سکیں۔اس وقت فیصل آباد میں 29 کے قریب بحالی معذوراں ادارےکام کر رہے ہیں۔ اور ان اداروں کے اساتذہ کی تعداد 300 ہے ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ معذور افراد کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔مزید یہ کہ سرکاری نوکریوں میں ان کا کوٹہ محض 02 فیصد ہے حالانکہ جتنی تعداد میں معذور افراد موجود ہیں اس کے مطابق ان کا کوٹہ کم از کم 10فیصد ہونا چاہیئے ۔E-D-O فیصل آباد کا کہنا ہے کہ معذور افراد کے کوٹے میں 10 فیصد نہیں تو کم از کم 06 فیصد ضرور ہونا چاہیئے وزیرآعظم ہاؤس کی جانب سے تمام اداروں کو ایک خط لکھا گیا تھا جس یہاں ہدایت کی گئی تھی کہ معذور افراد کو ہر ادارے میں نوکریاں دی جائیں اس کے علاوہ ان کو عمر کی حد میں بھی چھوٹ ملنی چاہیئےحکام کے مطابق بہت سے معذور افراد ایسے ہوتے ہیں جو بہت دیر میں منظر عام پر آتے ہیں۔جس طرح خواتین اور جنرل پاپولیشن کی حد عمرمیں میں 05 سال کی رعائیت دی گئی ہے اسی حساب سے ان کو بھی کم از کم 10فیصد رعائیت ملنی چاہیئے۔اگر اس وقت معذوروں کے لیئے کی گئیں اصلاحات دیکھیں تو یہ انتہائی کم ہیں، نہ تو ان کیلئے پبلک باتھ رومز کا کوئی انتظام ہے اور نہ ہی کوئی پبلک ٹرانسپورٹ جیسا کوئی سلسلہ یہ وہ اہم اقدامات ہیں جن سے معذور افراد یکسر محروم ہیں۔08 لاکھ گھر بیٹھے معذور بچوں کو تعلیمی اداروں تک لانا بھی ایک چیلنج سے کم نہیں۔
E-D-O اور اساتذہ کا کہنا ہے کہ ایسےافراد جو کے جسمانی معذوری کا شکار ہوتے ہیںیہ کسی ہمدردی کے نہیں بلکہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔اگر ان پر توجہ دی جائے تو یہ انمول جواہرات ہیںجن کی قیمت شائد ہی کوئی دے سکے۔ہمدردی کے الفاظ ان کی صلاحیتوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے مترادف ہوتے ہیں۔